Poetry

وحدت کالونی، میرا ڈزنی لینڈ

فضا قریشی

 

ابھی کل ہی کی تو بات ہے

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے

اچھلتے کودتے

دھن دھناتے

گلی کوچوں میں

پھرا کرتے تھے

تیز دھوپ میں

پہل دوج کھیلا کرتے تھے

کیا فینٹسی لینڈ تھی

وحدت کالونی

جیسے ڈزنی لینڈ تھی

وحدت کالونی

جانے کیسے بڑے ہوتے چلے گے

جانے انجانے سارے دوست

چھوٹتے ہی چلے گے

وحدت کالونی کو ہم

ہاے بس بھولتے ہی چلے گے

گویا محبتوں کے دھاگے

ٹوٹتے ہی چلے گے

وحدت کالونی نہیں چھوڑی

ہم نے گویا اپنی کلاس تھی چھوڑی

ہم بڑے لوگ بنتے ہی چلے گے

غریب دوستوں کو چھوڑتے ہی چلے گے

آگے اور آگے بڑھتے ہی چلے گے

اور اب پیچھے مڑ کے جو دیکھا

تو بھیڑ میں ہم تنھا تھے تنھا ہی رہ گے

 

ورکر عورت

فضا قریشی

 

شکاگو کے شھیدوں کا خوں

کیا راِئیگاں گیا

اس لھو میں کیا

شامل نہ تھا

تیرا اور میرا لھو

ایک عورت کا لھو

ایک ورکر عورت کا لھو

ورکر عورت

کجاگھر ہو یا کھیت کھلیان

فیکٹری ہو یا کھلے میدان

ہر جا اسکے مالکان

دگنی محنت

کم تر اجرت

نہ حساب کیا  

نہ کتاب لکھی

نہ اسنے اپنے آنسو لکھے

بچوں کی نہ بھوک لکھی

کپڑے اسنے کیا خوب بنے

اسکے بچے ننگے گھومیں

جوتے واہ واہ دنیا پہنے

اسکے بچے خواب ہی دیکھیں

اسکی محنت گھنٹے سولا

تم نے اسکو کیسے تولا

تول سکو تو تولو تم

جگتی اسکی راتیں تولو

دکھتے اسکے دن بھی تولو

دور دراز علاقوں سے

پانی بھرنا اسکا تولو

لہلہاتے کھیتوں میں

فصلیں چننا اسکا تولو

تیز کڑکتی دھوپ میں سڑتے

سڑک کنارے پتھر کوٹے

مالکان کی ڈانٹ کو سہتے

فیکٹریوں میں کپڑے سیتے

کھیتوں اور کھلیانوں میں

بچے جنتے درد کو تولو

پھر کچھ بولو

خود کو ٹٹولو

کیا اسکو دے پائےتم

پوری اجرت

پکا کاغذ

تھوڑی عزت

اپنی حفاظت

کوئی چھٹی

کوئی حق

آٹھ گھنٹے

شکاگو کے

شہیدوں کے

  خوں کے عیوض

 

گورک جي هل اسٽيشڻ

 

او سنگتراش
گورک جي هل اسٽيشڻ تي
منهنجي حُسن جو ڪو حسين بوتو ٺاهي
ان۾ ڀر مڙئي رنگ ۽ اميدون
آس ۽ امنگ جو رنگ
صبح جي چٽاڻ جو رنگ
سفيد امن جو رنگ
ڳاڙهو انقلاب جو رنگ
سرمئي رنگ
پيلو زرد رنگ
شام ۽ شفق جو رنگ
چنڊ جي چانڊاڻ جو رنگ
تارن جي سهائي جو رنگ
وڻن جي ساوڪ جو رنگ
گورک جي ڳاڙهن جبلن جو رنگ
ان رنگ ۾ ملائي
تيز هوائون
زمين کان آسمان تائين تا حد نظر
انڊلٺي ريکائون
او سنگ تراش
ڀري سگهين ته ڀر
ڪنهن جاڳ جو رنگ
تنهنجي منهنجي ڀاڳ جو رنگ
رنگن کي جرڪائي تون
آسن سان مهڪائي تون
همت سان ٻهڪائي تون
چو طرف هٻڪار ڪر
او سنگتراش!
ابن مريم بنجي پئو
حُسن جي حسين بوتي ۾
ٻيهر ساه ڦوڪي
جلا بخش
او سنگتراش
گورک هل جي اسٽيشڻ تي

ڏهاڳ

پريتم پيارا تو بن سانول،
ذرو ذرو ٿي روز مران ٿي.

ڪهڙو ڏيئي وئين ڏهاڳ او راڻا،
تيز بارش ۾ پيئي سڙان ٿي.

جيئن ڪرڪي ڪا ڪونج برپٽ

تو بن راڻا ائين رڙان ٿي.

ڪيئي حيلا، ڪيئي بهانا

دل چوي مان ڪيئن مڙان ٿي.

اچ هتڙي يا مونکي گھرائي،

کڻي گھڙو ڏس مان به گھڙان ٿي.

 

 

اسما جهانگير _ پڙاڏو سو ئي سڏ

فضا قريشي

اچو ته اسما جو تڏو وڇايون

انساني حقن جو تڏو

تن جي علمبردار جو تڏو

همتن ۽ حوصلن جو تڏو

اسانجي آوازن جو تڏو

تڏو آ ويڙهاند جو

جنهن ايوانن کي لرزايو

۽ ضياء کي هو ڌمڪايو

ٿي مشرف کي هو ڌڌڪايو

دنيا ساري ديس سندس هو

انسانيت ئي ويس سندس هو

لاهور جي جا لڙڪي هئي

راڄن تي ٿي راڄ ڪيائين

بلوچ هئا سي ساه ۾ سانڍيل

پختونن کي پياري هئي

سنڌ جي راج دلاري هئي

جيڪا جهانديده هئي

سا ته جهانگير هئي

جنهن ٿڏيو ٿي رمزن کي

تُنهنجي لالچ لوڀن کي

جرنيل سمورا پرتي ٿين

۽ ڏاڍ ڏمر جا رکوالا

هند وسن يا سنڌ وسن

ذرا هٽن ۽ پرتي ٿين

تُنهنجو تڏو قبول ناهي

تون ڇا کيس ڀيٽا ڏيندين

پنهنجي منهن تي چماٽ هڻندين

اسما ماڻهن لئي جيئي

اسما ماڻهن لئي مئي

اسما ماڻهن منجهه مئي

اچو ته اسما جو تڏو وڇايون

زالين مڙسين کيس دفنايون

پوء اٿون ۽ کيس ورايون

اسما بڻجي ايوانن کي

سچ سڻايون  حق ٻڌايون

اسما جي ڪا گونج ٿيون

مسڪينن جو سڏ ٿيون

مزدورن جو هڏ ٿيون

پڙاڏو سو ئي سڏ ٿيون!

 

زخمی روح

فضا قریشی 

بہت زخمی ہے یہ روح لیکن

اب بھی اس زخمی روح میں

اتنا تو دم ہے کہ

سارے فرسودہ ریتوں اور رسموں کو

جڑ سے اکھاڑ پھینکے

جو جڑ سے نہ اکھڑیں تو

تنے سے کاٹ پھینکے

تناوروں کی ٹہنیوں کو

ہلاتے ہلاتے

انکے سارے پتے گراتے

انکو ننگا کردے

اتنا تو دم ہے

میری ذخمی روح میں

کھجلی

فضا قریشی

عورت آزاد تب ہوگی

جب اسکے ہاتھ میں بھی

اس وقت کھجلی ہوگی

جب اسے دیکھتے ہی

مخصوص قسم کے مردوں کے

عضو خاص میں

کھجلی ہوتی ہے

 

فٹبال

فضا قریشی

میرے محبوب

تیرا شکریہ

جو مجھے تونے

فٹبال بنا ڈالا

جو چاہا

خوب اچھالا

کھیلا کودا

بانہوں میں بھر کے

گلے لگا کے

لیے لیے گھوما

کبھی بیگ پیک میں ڈالے

کاندھے پہ لیے پھرایا

جو چاہا تو ہلکی پھلکی پریکٹس کی

جو ضرورت پڑی تو 

بڑا میچ کھیل ڈالا

ایک ہی کک سے

گول کر ڈالا

کیا فرق پڑتا ہے

گر فٹبال

گول کے پنجرے میں

جا دھنسا

میرے چیمپیئن

میں تمہارا فٹبال ہوں

جسکو جب چاہے

بدل دینا

نیا لے آنا

میں خوش ہوں

تم چیمپیئن بنے

اورتم نے ہیٹ ٹرک کرڈالی

 

شکست خوردہ

فزا قریشی

میں شکست خوردہ عورت

ہتھیار ڈالتی ہوں

مٹھی کھولتی ہوں

خود کو ٹٹولتی ہوں

میری وفا

میری انا

دو بہنیں

دو سھیلیاں

نہ محبتوں کی بہیک مانگی

نہ اجرتوں کا کوئی صلہ

 جو بھی ملا

پر ملال ملا

بس جیسے اک خواب ملا

اپنی راہیں الگ الگ ہیں

وہ جو بانھیں گلے میں ڈالے

تھے جھلاتے

وہ تیری بانھیں ہماری کب تھیں

وہ تیری سانسیں ہماری کب تھیں

تمہاری بانھیں

تمہاری سانسیں

ادھار کسی کا

میری وفا نے

میری انا نے

کبھی نہ جانا

یہ احساں کسی کا

اب جو جاگے خواب سے ہم تم

حقیقتوں میں لوٹ جاو

جاکے اپنی دنیا بساو

میری وفائیں

میری انائیں

شکست خوردہ

بھلے ہو کتنی

احساں کسی کا اٹھا نہ پائیں

ادھار کیونکر چکا نہ پائیں

 

کماو عورت

فزا قریشی

میں ایک کماو عورت ہوں

اور کہیں سے بھی انسان نہیں ہوں

نام ہوں ایک جنس کا

کبھی صنفی جنس کبھی زرعی جنس

جو صنفی جنس بنی تیرے بستر کی زینت ہوئی

جو زرعی جنس بنی تو اک کھیت کا گنا ہوئی

جتنا چاہا رس نچوڑا

گنڈیری بن بن مجھ کو چوسا

چینی بن بن مجھ کو چاٹا

چٹ چٹا کے مجھ کو کھایا

کھا کھپا کے

چس چسا کے

قطرہ اک نہ رس کا بچا کے

مجھ  کو پھینکا

دوجی لایا۔

 

ریزہ

فضا قریشی

 

ٹوٹ کے جو بکھری

تو ریزہ ریزہ ہوئی

ہر ٹکڑہ

لاکھوں کروڑوں حصوں میں

گویا تقسیم ہوا

وجود میرا کیا تھا

جو ایک تیشہ ہوا

ہر ٹکڑے سے خوں بھتا ہوا

ہر ریزے سے ریشہ ٹپکتا ہوا

ٹکڑوں کو جو سمیٹا

تو دامن تار تار ہوا

شکستہ وجود لیے

دامن تار لیے

چاک گریباں لیے

جو نکلے ہم

تو گویا خلد سے

آدم نکلے

تیشوں سے علم بنائے

جو بڑھے تو نہ رکے

نہ روئے نہ گڑگڑائے

بڑھتے ہی چلے گئے

اپنی ذات میں

انقلاب کی مانند

سرخرو ہوتے ہی چلے گئے

قدم قدم رہ یار

تجھے یادگار

کرتے ہی چلے گئے

 

دکھ

فضا قریشی

مجھے دکھ دو

جی بھر دو

یہ دکھ

سکھ سے عظیم تر ہے

یہ دکھ

میری طاقت و زر ہے

یہ دکھ

جلا ہے بخشے مجھے

یہ دکھ

ضیاء  ہے بخشے مجھے

یہ دکھ ہے

جو قلم اٹھاتا ہے

یہ دکھ ہی

تو علم اٹھاتا ہے

آو زور بازو آزمائو

تم بھی

دکھ دے کر اور ستاو

تم بھی

آو در بام نظریں ملاو

تم بھی

آو سر عام قسمیں کھاو

تم بھی

تم جو میرا سکھ بھی ہو

تم جو میرا دکھ بھی ہو

تم جو خدا ٹھرے

سر بازار آو

ڈگمگاو تم بھی۱

  

 

سب آرڈینیٹ

فضا قریشی

میں سب آرڈینیٹ ہوں

گھر میں

دفتر میں

پارٹی میں-

گھر میں

پہلے ابا چلاتے تھے

پھر بھائی

پھر شوہر

آگے بیٹا چلائے گا

دفتر میں باس کو رپورٹ کرتی ہوں

پارٹی میں بھائی بندو

سارے اہم فیصلے کرتے ہیں

میں چپ چاپ سر ہلاتی ہوں

اور ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے

ایک جاں نثار کارکن کی طرح

اس فیصلے پر عمل کرتی ہوں

چوں چراں کرنے کی مجھے کہیں بھی اجازت نہیں

جہاں کہیں سر اٹھایا

باعٰی اور عٰدار کا لقب پایا

کیونکہ میں ایک سب آرڈینیٹ ہوں

میں باعٰی بننے کے اہل نہیں

گھر میں

دفتر میں

پارٹی میں

ہر جگہ

مجھے وہ ہی چلاتے ہیں

جب کوٹھے پر جا بیٹھی

طوائف بنی یا نائکا

چلایا اسی نے مجھے

کیونکہ میں ایک سب آرڈینیٹ ہوں

سکھی

فزا قریشی

اری او سکھی

تجھے کیا خوف ہے مجھ سے

تو بھی اک عورت

میں بھی حوا جائی

تو بھی دردوں کی پالی

میں بھی جنم جلی

تجھے کیا خوف کھاتا ہے

تجھے کیا عٰم رلاتا ہے

کیا چرب زبانی میری

تیرا بندہ ہے  لے اڑی

کیا گھربار یہ تیرا

جو تیرا ہے سرمایہ

میں جھپٹ لوں گی یہ تم سے

میں چھنال جو ٹھری

اوری سکھی میری

میں ہوں سکھی تیری

میں نکلوں جو آگے

کروں تیری ہی شنوائی

میں جو عکس ہوں تیرا

تیرے دردوں کی دوا ہوں

کر نہ دشمنی مجھ سے

بانٹ کچھ روشنی مجھ سے

میں تیری عٰمگسار ہوں

میں تیری رازدار ہوں

مجھے کمزور نہ کر تو

لگا دیوار سے مت تو

میں ہوں سکھی تیری

اوری سکھی میری 

 

میزان

فضا قریشی

تم تولے ہو پیسوں میں

میں اپنے احساسوں میں

پیار کو تولا

پریت بھی تولی

تولی عزت عصمت بھی

رشتہ تولا پیسوں میں

کپڑے، زیور، مھنگے ہوٹل

لکھتے جاو، گنتے جاو

کھانا، پینا، صیب اور پھل

لکھتے جاو، گنتے جاو

ہاں مگر گننا انتظار کی وہ گھڑیاں

اور لکھنا میرا ماں بننا

اگرچہ تول سکو تو ناپو تولو

ایک ماں کے پیار کی گھرائی

اسکو کیا تم تولو گے

حق مھر کی سنت میں

جو تو تم سے ادا نہ ہوئی

نان و نفقہ کے قانون میں

جس کی قیمت ہوئی ہے بھاری

اب رہنے دو حسابوں کو

بند کردو کتابوں کو

  

خواب و عذاب

فضا قریشی

 

میں نے خود ہی بنے ہیں

اپنے سارے خواب

سارے میرے خوابوں نے

جنمے ہیں

سارے میرے عذاب۔

میرے خواب

بخشیں مجھے

جینا کا کرینہ

اور میرے عذاب

ہیں گویا

لڑنے کا نگینہ

میری رگوں میں

یہ جو دوڑے ہے

یا تو کوئی خواب ہے گویا

یا ہے کوئی عذاب

سینے میں جو دھڑکے ہے

یا تو کوئی خواب ہے گویا

یا ہے کوئی عذاب۔

 

 

کالی بلی

فضا قریشی 

کل کالی بلی راستہ کیا کاٹ گئی

سارے کے سارے دوست منہ پھیر گئے

وہ جو سالوں پرانے رشتے تھے

اور ہماری محبت کا دم بھرتے تھے

آنکھ جھپکتے پل بھر میں فٰر ہوگئے

کالی بلی کے چمتکار تو دیکھو

کہنے کو صرف ایک رستہ کاٹا

دیکھے بھالے سارے چہرے

بے نقاب ہوئے

ہائے پل بھر میں ہم اور وہ

 بے حجاب ہوئے 

کالی بلی راستہ کاٹ گئی

ہماری زندگی سرے سے ہی بدل گئی

سوچتی ہوں کاش میں بھی کالی بلی ہوتی

سارے عورت دشمنوں  کے

سارے انساں دشمنوں  کے

راستے کاٹتے پھرتی میں

سب کو ناکام کرتی میں

 

 

دوپٹہ

فضا قریشی

 

وہ دوپٹہ نھیں اوڑھتی

سر پر علم کا تاج لیے

آنکھوں میں عزم

سینے پہ  اعتماد کا تمغہ سجائے

وہ سمجھتی ہے کہ یھی اسکی اوڑھن ہے

جو پڑھا لکھا وہی اوڑھ لیا

خود کو جو کتابوں میں دفن کرلیا

اسکے لفظوں کا تال میل

اسکی آواز کی گرج

اسکے چھرے کا سکوں

کیا بچا پائیں گے اسے

دنیا کی گرد سے

چبھتی ھوئی نظروں سے

یہ دنیا اسکے دوپٹہ نہ پھننے سے

جو ننگی ھوئی کھڑی ہے

سارے مردوں کے

پختہ ایمان

ڈگمگا اٹھے ہیں

یہ سلطنت اسکے دوپٹہ نہ اوڑھنے سے

جو لرز اٹھی ہے

تھر تھر کانپ رہی ہے

اسکے سارے رسم و رواج

تھذیب و تمدن

اصول و افکار

اس ایک کے

دوپٹہ نہ اوڑھنے سے

کانپ اٹھے ھیں

جیسے اسنے وہ گناہ کر ڈالا

جسکی بخشش نھیں ہوتی

نہ دنیا کی عدالت میں

نہ لوگوں کی

اور نہ اپنوں کی 

بھائی

فضا قریشی

میرے سینکڑوں بھائی ہیں

 اک ماں جائے

دوجے سماج جائے

تیجے سیاست جائے

چوتھے بھی کوئی ہونگے

سب میں اک بات مشترک ہے

کہ سب بھائی ہیں

سب یہی سمجھتے ہیں

کہ کوئی بھی کام

بعٰیر انکے

میں ڈھنگ سے

کر ہی نہیں سکتی

میرے سارے بھائی

میری مدد کے لئے

اتاولے ہیں

ہر وقت حاضر و ناظر

ہر وقت جاں ہتھیلی پہ لئے

میرے آگے پیچھے

منڈلاتے رہتے ہیں

امی حضور

بتا دیجئے انھیں

میں آزاد فضا میں

سانس لینا چاہتی ہوں

میں اپنی شرطوں پہ

جینا چاہتی ہوں

میں انکے بعٰیر بھی

کچھ کرکے

دکھانا چاہتی ہوں

میں اپنا لوہا منوانا چاہتی ہوں

بس  مجھے میرے حصہ کی جگہ دے دیں

قانون میں وہ شق وضع کردیں

وِنگوں سے مجھے نجات دے دیں

سماج میں جو میرا ہے مقام

وہ مقام لینے کی اب اجازت دے دیں

سیاست میں کروں میں خود اپنے فیصلے

وہ حق میرا مجھے برملا دے دیں 

عجیب غریب زندگی

فضا قریشی

وہ زندگی غریب تھی

یہ زندگی عجیب ہے

وہ جو غریب تھی زندگی

ہائے پیار کی مفلسی کے پیرہن

چاک گریباں لیے

جابجا ٹاٹ کے پیوند لگے

کسی معجزے کے انتظار میں جیے جاتے تھے

بہت غریب تھی زندگی

یہ جو عجب ہے زندگی

لیے پھرتے ہیں ہم

پیار کا کشکول

سوالیہ نگاہوں میں

ہزار حسرتیں لیے

چہرے پہ مسکراہٹ سجائے

تمہیں تکتے ہی جاتے ہیں

نہ مرے جاتے ہیں

نہ جیے جاتے ہیں

انتظار کیے ہی جاتے ہیں

بہت عجیب ہے زندگی

بس یہی ہے زندگی 

عجیب اور غریب ہے زندگی۱  

اعتماد

فضا قریشی

اسکا مجھ پہ اعتماد بلا کا ہے

وہ جانتا ہے میں بارہ بچے جن سکتی ہوں

موت سے بھی لڑہ سکتی ہوں

دنیا سے جگھڑ سکتی ہوں

ماتا پتا تج سکتی ہوں

مستقبل سے کھیل سکتی ہوں

کورٹ میرج کر سکتی ہوں

بنا نکاح کے پنپ سکتی ہوں

کیونکہ

اسکا مجھ پہ اعتماد بلا کا ہے

اسکا یہ اعتماد میری حیات ہے

میری حیاتاور میری اَثاث ہے

فرق کچھ نہیں پڑتا

جو مجھے موبائل رکھنے کی اجازت نہیں

جو فون کی گھنٹی بجے

سہم تو سکتی ہوں

پر فون اٹھا نہیں سکتی

اکیسویں صدی سے کیا فرق پڑتا ہے

کو ایجوکیشن سے کیا فرق پڑتا ہے

تھی میں عورت

رہی میں عورت

اسنے کیا اعتماد بخشا مجھے

سارا گھر اکیلے سونپا مجھے

بچے جنے، پالے، سنبھالے

سب اسکا اعتماد ہی تھا

فرق کچھ نہیں پڑتا

جو چچا اور چچا زاد کو

ماموں اور ماموں زاد  کو

میرے پیارے بھنوئی کو

اسکی غیر موجودگی میں

مجھ سے ملنے کی اجازت نھیں

ہو بھی کیسے

نامحرم جو ٹھرے

اسکا مجھ پہ اعتماد بلا کا ہے

خواہ وہ غیر ہے اور نہ اپنا ہے پر

بابا اور بھائی کو مجھ سے ملنے کا پروانہ ہے

اسکا یہ احسان کیا کم ہے

اسکا یہ اعتماد میری حیات ہے

میری حیات اور میری اَثاث ہے

فرق کچھ نہیں پڑتا

جو میری سہیلیوں کے

میرے گھر آنے پر

پابندی لگادی گئی ہے

انکے گھر جانے کا میں سوچ بھی نھیں سکتی

سوچوں بھی کیسے

یہ سہیلیاں ہی تو

حسد کرتی ہیں

سہیلیوں کے گھر تباہ کرتی ہیں

اسکا مجھ پہ اعتماد بلا کا ہے

خواہ وہ غیر ہے اور نہ اپنا ہے پر

اماں ،بھنا اور بھابھی کو مجھ سے ملنے کا پروانہ ہے

اسکا یہ احسان کیا کم ہے

انکو مجھ سے ملنے کی اجازت ہے

اسکا یہ اعتماد میری حیات ہے

میری حیات اور میری اَثاث ہے

فرق کچھ نہیں پڑتا

جو مجھے گھر میں

کام والی ماسی کی اجازت نھیں

ہوبھی کیسے

یہ چھنال ماسیاں

اس اسکے پیغام جو لاتی ہیں

مجھے ڈگر سے ہٹاتی ہیں

تباہی کی راہ دکھاتی ہیں

اسکا مجھ پہ اعتماد بلا کا ہے

اسے یہ پکا پتہ ہے

اکیلے تن تنہا

سارا گھر سنبھال سکتی ہوں

بارہ بچے پال سکتی ہوں

اکیسویں صدی سے کیا فرق پڑتا ہے

کو ایجوکیشن سے کیا فرق پڑتا ہے

تھی میں عورت

رہی میں عورت

عورتوں والے سارے کام

بلا شبہ میں کرسکتی ہوں

کیونکہ

اسکا مجھ پہ اعتماد بلا کا ہے

یہی اعتماد میری حیات ہے

میری حیات اور میری اَثاث ہے

عورتوں کا عالمی دن

فزا قریشی

عورتوں کے عالمی دن پر

میری مرصّی نہ جانی کس نے نہ پوچھی کس نے

میرے کمزور دل پر

تیرے الفاظوں کے نشتر

چبھتے ہی چلے گئے

میں نے جو پھول دیے تمھیں

میری روح پر

 پتھر بن کر

برستے ہی چلے گئے

جسم کے ساتھ میرے احساس

کچھ اس طرح

نوچے اور دبوچے گئے

کہ پھر کبھی نہ سر اٹھانے کے قابل رھے

عورتوں کے عالمی دن پر

سوچتی ھوں

کہ پورا دن نہ سہی

کوئی ایک پل

ایک لمحہ

اپنے لئے جی پاتی

باقی زندگی نہ سہی

عورتوں  کے عالمی دن پر سہی

 

رپورٹ

فضا قریشی

میں کہاں آتی ہوں

میں کہاں جاتی ہوں

میں کس سے ملوں

کہاں ملوں

جب ملوں

جیسے ملوں

جہاں ملوں

کیا کہوں

کیا سنوں

تمہیں سب رپورٹ کرتی ہوں

میں نے کیا کھایا

کیا پکایا

کیا پہنا

کیا اوڑھا

روز رپورٹ کرتی ہوں

کوئی آئے کوئی جائے

رپورٹ کیا جائے

شکایت پھر بھی بر آتی ہے

کمی کہیں نہ کہیں رہ جاتی ہے

چلو شکایت دور کیے دیتے ہیں

آج سب رپورٹ کیے دیتے ہیں

وہ سب شکایتیں

ان کہی سی حکایتیں

چھوٹی چھوٹی بعٰاوتیں

آج رپورٹ کرتی ہوں

وہ میرے اشک سبھی

جو سرہانے جذب ہوئے

وہ میرے خواب سبھی

جو کہیں عٰصب ہوئے

تیرے سوال سبھی

میرے جواب ہوئے

فلک سے اترے جو

سارے عذاب ہوئے

گناھ تیرے سبھی

میرے ثواب ہوئے

جو جان سکو او جاناں

سب رپورٹ کرتی ہوں

وہ سارے رت جگے

وہ سارے قہقہے

جو کہیں ہیں کھو گئے

وہ ماھوار تنخواہ میری

آدھ مہینے ختم ہوئی

سب رپورٹ کرتی ہوں

وہ زھر تنہائی

وہ میرا بوجھل پن

وہ سردی کی راتیں

وہ میرا چنچل من

بستر کی وہ سلوٹیں

اور سلگتا تن بدن

سب رپورٹ کرتی ہوں

میرے ماتھے کے یہ بل

تمہیں رپورٹ کرتے ہیں

میری آنکھوں کے حلقے

تمہیں رپورٹ کرتے ہیں

ڈھلتی کہانی ہے جوانی

تمہیں رپورٹ کرتی ہوں

آج رپورٹ کرتی ہوں

جان سکو تو جان من

تیرے اندر رہتی ہوں

جو تو چھپ چھپ سوچے ہے

کس کی سوچ میں تڑپے ہے

سب جانتی ہوں

سمجھتی ہوں

پھر بھی چپ چپ رہتی ہوں

چلو آج رپورٹ میں کرتی ہوں

ہاں ٹھنڈی آہیں بھرتی ہوں

نہ جیتی ہوں نہ مرتی ہوں

ٹک ٹک راہ تکتی ہوں

بوجھ اٹھائے پھرتی ہوں

دھرتی دھنستی جاتی ہوں

دلدل پھنستی جاتی ہوں

جو مان سکو تو مان لینا

جو جان سکو تو

جان من

آج رپورٹ میں کرتی ہوں

سب رپورٹ میں کرتی ہوں

 

مردوں کا عالمی دن

فزا قریشی

آو ھاتھ اٹھائیں دعا کے لئے

خدا وہ دن جلد ہی لائے

مردوں کا عالمی دن منایا جائے

کچھ قصیدے بے لوث قربانیوں کے

کچھ نوحے انگنت حیوانیوں کے

جو ظالم ھے مظلوم بنے

جو حاکم ھے محکوم ٹھرے

جو آج ھے منصف کل انصاف کو تڑپے

آو دو دو ھاتھ اٹھائیں

مردوں کا عالمی دن منائیں

 

 

بری عورت

فزا قریشی

میں ایک بری عورت ھوں

نہ اچھی بیٹی بن سکی

نہ بیوی نہ بہن نہ ماں

ہزار جتن کیے

بری تھی بری ہی رہی

سوچا چلو کچِھ اورکوشش کرتے ہیں

کچھ کپڑوں کا سھارا لیتے ھیں

کچھ پاوڈر سرخی ملتے ھیں

سجتے سنورتے ھیں

ایشوریا راے بنتے ھیں

کمر لچکاتے کچھ بال سنوارتے

چلو نین مٹکاتے ھیں

پر ہاے ری عورت

میری قسمت

رہی میں بری کی بری

کرتی بھی کیا

کبھی گھر کی چکی میں پستی رھی

کبھی کولہو کے بیل کی طرح تیرے گرد گھومتی رھی

تم نے ہنسایا تو کھل کھلاکر ہنس دی

جو رلایا تو جی بھر کے رو دی

آٹا گوندھتے

روٹی پکاتے

سالن کھلاتے

جھاڑو لگاتے

کپڑے دھوتے

بچے جنتی رھی

جیتی اور مرتی رھی

کماتی بھی رھی

اچھی بننے کی کوشش میں

بھاگتی دوڑتی سر پٹکتی رھی

پر ھاے ری عورت

میری قسمت

رھی میں بری کی بری

آج عورتوں کے عالمی دن پر

چلو معمہ سلجھاے دیتی ہوں

چلو میں مان لیتی ھوں

میں ایک بری عورت ھوں