مینگروو کا کیس عوامی عدالت میں

“میں ایک مینگروو درخت ہوں۔ میں وہاں پایا جاتا ہوں جہاں دریاہ اور سمندر کا میلاپ ہوتا ہے۔ دنیا میں میری بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں پر یہاں ایرڈ زون میں پائے جانے والی اقسام میں میرا شمار سب سے بڑے مینگروو کے جنگلات میں ہوتا ہے۔ مجھے سندہو دریا سیراب کرتا ہے۔ یہاں میری ۹ اقسام پائی جاتی تھیں جن میں اب جا کر کوئی ۲ یا ۳ ہی بچ پائی ہیں۔ میں یہاں کے باسیوں کو گھر بنانے کے لئے لکڑی، جانوروں کے لئے چارہ اور ایندھن فراہم کرتا ہوں۔ ہمارے کناروں پہ بسنے والے ہزاروں ماہگیروں کے لئے میں ذریعہ روزگار ہوں۔ مگر یہ بچارے ماہگیر میری ان بے پناہ خوبیوں سے شاید ناواقف ہیں ورنہ وہ اس بےدردی سے مجھے کبھی بھی کٹنے نہ دیتے۔ اگر انکو پتہ ہوتا کہ مچھلی اور جھینگا ، جو وہ سمندر سے پکڑ کے لے آتے ہیں وہ تو میری ہی گود میں پلتے ہیں۔ میں ہی تو مچھلی اور جھینگے کے کمسن بچوں کو خراب موسم اور سمندری بلاوں سے بچاتا ہوں۔ ہم اگر اپنی خدمتیں گنوانے پر آئیں تو گویا دفاتر بھر جائیں مگر ہم ساحلوں کے خاموش سپاہی ہیں۔ ہم ہی تو ہیں جو خطرناک سمندری لہروں اور طوفانوں کے آگے سینہ سپر ہیں۔ تیز ہوائوں کی تیزی ختم کرکے ، ساحلی کناروں کو کٹاو سے میں اور میرے ساتھی ہی تو روکتے ہیں۔ مجھ سے پیدا ہونے والی شہد انسانوں کے لئے شفا ہے۔ میرے پتوں کی طاقت جانوروں کے لئے صحت کی ضامن ہے۔ مگر افسوس ان ساری خدمتوں کے عوض مجھے کیا ملا؟ بے رحم کلہاڑیوں کے وار اور زخم۔
میں تو مسلسل اس اذیت سے گذر رہا ہوں اور نہ جانے کب تک گذرتا رہوں گا۔ کیا میں بھی اپنی دوسری اقسام کی طرح صرف تاریخ کا ایک ورق بن کر تو نہ رہ جائوں گا؟؟
میں سوچ سوچ کے حیراں ہوں کہ آخر انسان کب ہوش میں آئے گا اور کب وہ اپنے ہی ہاتھوں سے کئے جانے والی اپنی تباہی کو روکے گا۔ وہ کب یہ بات سمجھے گا کہ اگر میں نہیں رہونگا تو انکا روزگار اور غذا مچھلی اور جھینگا کہاں سے آئیں گے؟ کہاں سے وہ اپنے گھر بنائے گا؟؟ اسے کون طوفانوں سے بچائے گا؟؟ ہے کوئی جو یہ آسان سی بات انکو سمجھائے؟
اب تو نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ مجھ تک آنے والے سندھو دریا کے پانی کو ہی روکا گیا ہے۔ اے لوگو، کیا کسی کو پیاسا مارنا یزیدیت نہیں؟
“روکو روکو دریا کے پانی کو روکو، کہیں سمندر میں گر کے ضایع نہ ہو جائے” جب میں انکی اس طرح کی باتیں سنتا ہوں تو انکی عقل پر حیران ہوتا ہوں۔ جو پانی میرے اور پوری سمندری حیات کے لئے انتہائی اہم ہے وہ پانی ضایع کیسے ہوا؟ حقدار کو اسکا حق نہ ملے تو یہ ظلم نہ کہلائے گا؟ میرے بھائی اس پانی کو روک کر کھیتی باڑی ہی کریں گے نہ؟ تھوڑا سا حساب لگائیں کہ ایک ایکڑ پانی سے جتنے منافع کی فصل آپ لگائیں گے اتنے ہی پانی سے میں آپکو اس سے دوگنا منافع دے سکتا ہوں بلکہ دیتا ہوں۔ میٹھے پانی کو روک کے آپنے ہمیں بیمار کردیا ہے۔ ہم کمزور ہو چکے ہیں۔ سمندری پانی اب بغیر کسی روک ٹوک کے سوکھے پر آکے چڑہائی کرتا ہے، کناروں کو اس نے کاٹ کھایا ہے، زمین میں سیم بڑھ گئی ہے اور مچھلیاں کم ہوگئی ہیں۔
آپ تو سب جانتے ہیں کہ سندہ کی تھذیب اور ثقافت میں پلا مچھلی بھی ویسے ہی اہم ہے جیسے سندھی ٹوپی اور اجرک۔ پلا جو سندھ کی پہچان تھا اور مہیگیروں کا روزگار تھا ، اب بتاو کہ کیسے اپنی افزائش کے لئے سندھو میں داخل ہو جو اسکے راستے میں اب ۱۵۰ کلومیٹر کی خشکی حائل ہے۔ سندہو کو کوٹری کے پاس روک کے دراصل دو روحوں کو جدا کیا گیا ہے، جن کا میلاپ نہ صرف کتنے ہی خاندانوں کا ذریعہ روزگار تھا مگر کتنے جانداروں کا مسکن بھی تھا۔
منصفو۱ اس بات کی طرف بھی میں آپکی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہوں کہ میٹھے پانی کی کمی تو تھی ہی مگر زخموں پر نمک یوں چھڑکا گیا ہے کہ میری جڑوں میں شھر اور صنعتوں کا سارا فضلا بغیر کسی روک ٹوک کے روز ٹنوں کے حساب سے پھینکا جا رہا ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ خدایا۱ یہ انسان مجھ سے کس چیز کا بدلا لے رہا ہے؟ ہاں میرے کچھ ہمدردوں نے مجھے اور میری نسل کو اپنے تئیں بچانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ کچھ فورموں پر میری اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہےتو کبھی لٹیروں اور لینڈ مافیا کو بھی للکارہ ہے، جنہوں نے چند گز زمین اور چند روپیوں کی خاطر میرے سینے پر بلڈوزر چلوائے۔ ان جلادوں نے ان مرد مجاھدوں کو بھی شھید مینگروو بنادیا۔
میں ان اداروں کا ذکر ضرور کروں گا جنہوں نے میری نسل کو بچانے کے لئے کام کیا ہے، مینگروو لگائے بھی ہیں اور انکی حفاظت بھی کی ہے۔ ایسے سرکاری و نجی ادارے سالوں سے کام کر رہے ہیں اور اس کام پر لاکھوں نہیں کروڑوں ، روپے نھیں پر ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے انکے پاس کثیر التعداد فوج بھی موجود ہے مگر خدا جانے کام کا تسلی بخش کوئی نتیجا کیوں سامنے نھیں آ پایا۔ اور تو اور اگر فقط پچھلے ۲۰ سالوں کا شمار کریں اور حساب لگائیں کہ اس عرصے میں مجھ پر خرچ کتنا ہوا اور میری تعداد میں اضافہ کتنا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ یہ سن کر آپ پر سکتا نہ طاری ہوجائے کہ اس حساب سے میرا ایک پودا کوئی ہزاروں لاکھوں میں جا پڑا ہوگا۔ میں یاتھ جوڑ کے ان سارے اداروں سے گذارش کرتا ہوں کہ “بس ۱ بہت ہوگیا۔ خدارا میرے نام پر اور پیسے اینٹنا بند کردو اور اب مجھے بخش دو۔” یقین جانیں جب میرے یہ برائے نام محافظ ایک طرف میرے نام پر پئسے اینٹتے ہیں اور دوسری طرف مجھے کاٹتے اور بیچتے ہیں تو میرا دل خوں کے آنسو روتا ہے۔
‘ ہمیں یہ بھی تھا غنیمت کہ کوئی شمار ہوتا،
ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔’
میرے دوستو، آپ ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ میں ایک ضدی مینگروو ہوں جو فقط بچاو بچاو کے نعرے بلند کررہا ہے۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا اور میری نسل کا استعمال کرو مگر دانشمندی اور پائداری کے اصولوں کے مد نظر۔ اگر کوئی بوڑھا درخت کاٹتے ہو تو اسکے بدلے کم از کم ۱۰ نئے پودے لگادو۔ اس طرح ہی مل جل کر کام کرنے میں ہم سب کی بقا ہے۔
یہ عوام کی عدالت کسی منطقی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم نھیں ہونی چاہئے۔ میری یہ درخواست ہے کہ یہ عوام کی عدالت سارے اداروں کو پابند بنائے کی سب مل کر قاتلوں ، جلادوں اور لینڈ مافیا کے خلاف مل کرکورٹ میں پٹیشن دائر کریں۔
آج فیصلا عوام کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے جو اپنا کیس پیش کیا ہے اگر اس میں کوئی بات میں نے غلط کہی ہو تو بے شک میرا سر تن سے جدا کردو اور اگر آپ سمجھتے ہو کہ میری باتیں درست ہیں تو میرے لئے، اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بھتر مستقبل کے لئے فیصلا آپ  خود کرو۔

 http://www.humsub.com.pk/138985/fiza-qureshi/

Leave a Reply